حقائق کھل کر سامنے آگئے 'بول ' کی امید پھر سے جاگ اٹھی
اسلام آباد :(ویب نیوز) سینیٹ کی قائمہ
کمیٹی کے چئیرمین کامل علی آغا نے منگل کے دن ہونےوالے اجلاس میں کہا کہ حکومت کی
جانب سے جاری ہونےوالے این او سی کو صرف چہروں کی تبدیلی کےساتھ واپس نہیں لیا جا
سکتا کیونکہ اس معاملے کو گڈ گورنس کے خلا ف سمجھا جائے گا، اور اس یک طرفہ فیصلے
سے انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر آغا
نے اجلاس کے دوران پاکستان کے ممکنہ سب سے بڑے میڈیا ہاﺅس ’ بول ‘ کے معاملے پر
ان خیالات کااظہار کیا ،جسے وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے حکم آنے کے
بعدپیمرا نے 30 ستمبر 2015 کو بند کر دیا تھا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے
ہوئے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے نیوز چینل کی نشریات جاری رکھنے کی اجازت دی
گئی تھی تاہم پیمرا نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسکی نشریات بند کر
دیں۔اس اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر اقبال ظفر
جھگڑا، سینیٹر سعید غنی، سینیٹر نہال ہاشمی، سینیٹر روبینہ خالد، سینیٹر غوث محمد
خان نیازی، سینیٹر اشوک کمار، سینیٹر عثمان خان کاکڑ اور چیئرمین پیمرا ابصار عالم
شامل ہیں. قائمہ کمیٹی نے تفصیلاً اس معاملے پر بحث کی اور سینیٹرز نے ’بول نیوز‘
کی بندش اور تقریباً 22 سو افرادکی ملازمتیں چھن جانے پر تشویش کا اظہارکیا۔سینیٹر
آغا معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس چینل کی بندش اوربول ملازمین کی
تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا مسئلہ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔انہوں نے مزید
کہا کہ پیمرا کو اس چینل کےلئے سہولیات پیدا کرنے چاہئیں کیونکہ اس چینل نے شفاف
طریقے سے لائسنس حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا اس مقصد کے لئے وزارت داخلہ
کے ساتھ رابطے میں رہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ متعلقہ
لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایک سازش کے تحت’بول‘ کا بحران پیدا کیا جس میں بڑی حد تک
ذاتی مفادات کا عمل دخل ہے، انہوں نے کہا کہ بول نیوز کی نشریات کو تحقیقات کیئے بغیر
ہی بلاک کر دیا گیا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزارت اطلاعات
کسی بھی چینل کی نشریات بند کرانے کےلئے پیمرا کو ہدایت دینے کا کوئی مینڈیٹ نہیں
رکھتے، یہ غیر قانونی ہے. سینیٹر بابر نے کہا کہ پیمرا کے چیئرمین کو تمام معاملے
سے لاتعلق نہیںرہنا چاہئے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا
چاہیے. پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے بھی بول کے معاملے پر تحفظات کا اظہار
کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے بول کے معاملے کو سنبھالا گیا وہ درست نہیں تھا او ر
یہ حکومتی ناہلی کےساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بول کی انتظامیہ کو تما م
مسئلے میں نشانے پر رکھا گیا۔سینیٹر روبینہ خالد نے اس موقع پر کہا کہ ہر کوئی
جانتا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا ہاﺅس لانچ ہونے جا رہا ہے جس کی تیاریاں گزشتہ دو
سال سے جاری تھیں،اگر حکومت کو کسی باقاعدگی کا شبہ تھا تو اس کےلئے پہلے ہی
اقدامات کرنے چاہئے تھے ،یوں اچانک بول نیوز پر دھاوا بولنا اور سب کچھ ہی بند
کرنے سے ضرور یہ شبہ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بول نیوز کو
نشریات کے آغاز کی اجازت ملنی چاہئے، بول پر اس طرح سے اچانک حملہ کرتے ہوئے اسے
بند کر دینا بلا شبہ افسوسناک ہے کیونکہ اس کی وجہ سے سیکڑوں ملازمین بے روزگار
ہوئے ہیں ۔
World Letast News, Update کی تمام Mailsiہماری ویب سائٹ پرآپ )
Google+ Facebook, Twitter,world wide news this week, word latest news, news for international,news today world wide, international video news, metro ews live online tehsil mailsi, khabrain daily news, daily khabrain news urdu
( پر بھی ملاحظہ فرما سکتے ہیں
0 comments:
Post a Comment