گوگل میں200 بھرتیاں، انسانوں کے بعد اب جانوروں کو بھی تنخوا ملے گی، کسے اور کتنی ؟ جا نیئے
نیویارک(نیوز ویب)عالمی سرچ انجن ”گوگل“ کے دنیا
بھرمیں ویسے تو سیکڑوں ملازمین کام کررہے ہیں مگرآپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے
کہ ہردل عزیز سرچ انجن کے امریکا میں قائم ہیڈ کواٹر میں 200 بکریاں بھی تنخواہ پر
کام کرتی ہیں۔گوگل کی ملازم بکریوں کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہوگا مگر یہ
بکریاں پچھلے کئی سال سے کام کرتی ہیں۔ بھارتی اخبار کے مطابق گوگل نے ماؤینٹ بیو
میں اپنے ہیڈ آفس کےلیے دو سو بکریوں کو بہ طور چرنے کے لیے رکھا ہوا ہے جہاں یہ
بکریاں صدر دفتر کے لان میں اگنی والی گھاس چرتی ہیں، ان بکریوں کو باقاعدہ تنخواہ
کے ساتھ دیگر مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ بکریوں کو ہفتے میں ایک بارہیڈ آفس کے لان
میں گھاس چرانے کے لیے لایا جاتا ہے۔ اس طرح صحن میں گھاس کی ٹریمنگ کے ساتھ ساتھ
بکریوں کا پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔گوگل نے اپنے افیشل بلاگ پربھی بکریوں کوبہ طور
ملازم رکھنے کی تصدیق کی ہے۔ گوگل کے دفتر میں جہاں بکریوں کی موجیں لگی رہتی ہیں
وہیں کرمچاری بکریوں کے ذریعے فرینڈلی تعاون فراہم کرنے پر انتظامیہ کا شکریہ بھی
ادا کر رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گوگل اپنے دفتر کے لان میں اگنے والی گھاس کی
کٹائی کے لیے مشین استعمال نہیں کرتا۔ اس کی بنیادی وجہ دفتر کے عملے کو گھاس
کٹائی کی مشین کے دھوئیں اور اس کے شور سے پیدا ہونے والی آلودگی سے محفوظ رکھنا
ہے۔گوگل کی ملازم بکریوں کے لیے چراہوں کو بھی ٹریننگ دی گئی ہے تاکہ بکریوں کو
دفاتر کے اندر جانے سے روکا جاسکے اور انہیں صرف دفتر کے لان تک گھاس چرنے تک
محدود رکھا جاسکے۔ مشین کے ذریعے گھاس کٹائی کے بجائے بکریوں کے استعمال سے دفتر
کے ماحول کو خوش گوار رکھنا ہے، کیونکہ بکریوں کی آواز سے سکون ملتا ہے۔یہاں یہ
امرقابل ذکر رہے کہ بکریوں کے ذریعے گھاس کٹائی کا کام پہلی بار نہیں کیا گیا بلکہ
سنہ 2007ءمیں ”یاھو“ بھی بکریوں کو کرمچاری کے طور پراستعمال کرچکا ہے۔
(نوٹ)
World Latast News, Update کی تمام Mailsiہماری ویب سائٹ پرآپ )
World Latast News, Update کی تمام Mailsiہماری ویب سائٹ پرآپ )
Google+ Facebook,
Twitter,
world
wide news this week, word latest news, news for international,news today world
wide, international video news, metro news live online tehsil mailsi, khabrain
daily news, daily khabrain news urdu
( پر بھی ملاحظہ فرما سکتے
ہیں
0 comments:
Post a Comment